Salahuddin Ayyubi Episode 32 Review
Salahuddin Ayyubi Episode 32 Review قدس وہ سرزمین ہے جہاں عیسیٰ مسیح پیدا ہوئے اور فوت ہوئے۔ عیسائی کبھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ جس سے تم دستبردار نہیں ہو سکتے،واحد چیز۔۔۔ تمہاری نا ختم ہونے والی لالچ ہے۔ تم نے اس لالچ کی وجہ سے خون بہایا۔ معراج کی اس رات۔۔۔ انہوں (عیسیٰ علیہ السلام) نے میرے بھائی کہہ کر پیغمبر آخر الزماں ﷺ کا استقبال کیا۔ قدس پرچیز کا گواہ ہے۔ قدس ہمارا ہے۔ ہم قدس سے ہرگز دستبردار نہیں ہوں گے۔ اسے مار ڈالو۔۔۔
Salahuddin Ayyubi Episode 32 Review
ابھی کس چیز کا انتظار کررہے ہو؟ کیا اتنا شور کافی نہیں ہے،محترم وزیر صاحب؟ ہم آہنگ آوازیں سننے کا وقت نہیں آیا؟ مار ڈالو اسے۔۔۔ اب اس لڑائی کو ختم کریں،ہماری آوازیں کثرت کے تہوار میں شامل ہوں۔ بس کرو۔۔۔ اکھاڑے کو خالی کرو۔ اللہ کا شکر ہے۔ بیروت سے،قاہرہ،پہاڑوں،صحراؤں میں سنی گئی۔۔۔ خبصورت ترین آواز کی مالکن آ رہی ہیں۔۔۔ آپ مجھ سے کون سا گانا سننا پسند کریں گے،محترم وزیر صاحب؟ Salahuddin Ayyubi Episode 32 Review
میں تمہارا مشہور،قدس کا گانا سننا چاہتا ہوں۔ تمہاری آواز دریائے نیل سے پہلے ٹکرا جائے۔ ! قدس کے تمام راستوں سے ٹکرا جائے۔ – جو حکم۔۔۔ میں نے یہ گانا بیروت کی ایک خاتون شاعرہ سے سیکھا۔۔۔ وہ ایک عاشق تھی جس کا دل قدس کے لئے دھڑکتا تھا۔ وہ جس کا دل قدس کے لئے دھڑکتا تھا۔۔۔ ! بالکل ہماری طرح،امیر صلاح الدین یوسف۔۔۔ بالکل ہماری طرح۔۔۔ ! لارڈ بیلین۔۔۔ اے قدس۔۔۔! مجھے تیرے پھولوں سے پیار ہے۔
Salahuddin Ayyubi Episode 32 Review
اے قدس۔۔۔! تیری آرزو سے میری آنکھیں خشک ہوگئی ہیں،اےقدس۔۔۔! مجھے تیرے پھولوں سے پیار ہے۔ اے قدس۔۔۔! تیری آرزو سے میری آنکھیں خشک ہوگئی ہیں۔ اے قدس۔۔۔! میں تیرے پہاڑوں سے دور ہوں۔ پھر بھی،میں اب بھی ایک بار پھر زیتون کے درختوں کے نیچے سونے کی امید کرتی ہوں۔ اے قدس۔۔۔! میں تجھے نہیں بھولی،نہ تیری خوشبو کو بھولی ہوں۔۔۔ میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گی،میں تمہارے وطن میں واپس آؤں گی۔ اے قدس۔۔۔! مجھے تیرے پھولوں سے پیار ہے۔ ! میری آنکھیں خشک ہوگئی ہیں،اے قدس۔۔۔ تمہاری خواہش کے ساتھ۔۔۔
میں دور ہوں۔۔۔ ! تمہارے پہاڑوں سے،اے قدس۔۔۔ مجھے اب بھی سونے کی امید ہے۔۔۔ ایک بار پھر زیتون کے درختوں کے نیچے۔۔۔ اے قدس۔۔۔! میں تجھے نہیں بھولی۔۔۔ نہ ہی تمہاری خوشبو۔۔۔ میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گی،میں تمہاری سرزمین پر واپس آؤں گی۔۔۔ میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گی،میں تمہاری سرزمین پر واپس آؤں گی۔ میں تمہاری سرزمین پر واپس آؤں گی۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔ میری آنکھوں میں آنسوؤں کی کیا اہمیت ہے
اگر تم ان کو دیکھو۔۔۔ مصر کی خوبصورتی میں نیل کی موجودگی سے اضافہ ہوتا ہے۔ مصر کے آنسو،دریائے نیل۔۔۔ جناب۔۔۔! ہم نے بارہ آدمی کھوئے۔ ہم نے دو مریضوں کو وہاں چھوڑا۔ جو گیارہ افراد موجود ہیں،ان کے ساتھ سرائے واپس جا رہے ہیں۔ میں کیا کہہ رہا ہوں اور تم کیا کہہ رہے ہو،مائس۔۔۔! ہٹ جاؤ یہاں سے۔ غصّہ کیوں کررہے ہو؟ وہ بتارہا ہے کہ تم نے کثرت کے میلے کو کیسے خون سے رنگ دیا۔
میں نے نہیں،درگام نے کیا۔ تم نے بہت زیادہ بولنا شروع کر دیا ہے،ہاں؟ – تم نے ہمیں دھوکہ دیا۔ اگر تم بچے کو پانی میں نہیں پھینکو گے تو وہ تیرنا کیسے سیکھے گا؟ تم زندہ ہو،لطف اندوز ہوؤ۔۔۔ اگر تم کل صبح کی لڑائی سے بچ گئے تو۔۔۔ تم دیکھو گے کہ وزیر رکاوٹوں کو کیسے ہٹا دے گا۔ اس سے پہلے،تم سینکڑوں کشتیوں کے ساتھ شاندار مصری فوجیوں کا مخالف سمت سے۔۔۔ گذر کر،مشاہدہ کرو گے۔ پھر رکاوٹیں۔۔۔ جوش و خروش سے ٹھاٹھیں مارتا،پانی۔۔۔ زندہ رہ پائے تبھی میلہ دیکھ پاؤ گے۔ تمہارا یہ دوست بہت زیادہ خاموش ہے۔
شمسہ بالکل ایسی ہے۔ اسے سننے والے گونگے ہو جاتے ہیں۔ خداوند کے بعد،وہ (شمسہ) سب سے اچھی چیز ہے جو مصر میں موجود ہے۔ اور ایک بار جب وہ اپنے دل سے گاتی ہے،تو وہ سب کو محو کر دیتی ہے۔ میں نے عظیم حذیفہ کو اس کی آواز سن کر گرتے اور بیہوش ہوتے دیکھا۔ اسے دیکھنا،اسے سننا۔۔۔ ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ ! چلو۔۔۔ تمام کیا تم مجھے بتاؤ گے کہ میں نے کس کے لئے عہد توڑا؟ ! میں تمہارا یہ احسان نہیں بھولوں گا،شمسہ۔۔۔ شہوار کو بھی نہیں بھولنے دوں گا۔ پریقین رہو۔ تمہاری مدد کی۔۔۔ ! دوبارہ سے ضرورت پڑ سکتی ہے،شمسہ۔۔۔ جو کُچھ میرے بس میں ہوا(کروں گی)۔۔۔ تم نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ تلوار کس کی ہے۔
میرے بابا کی۔۔۔ اگر تم اس کے اتنے ہی وفادار ہو۔۔۔ تم نے اپنی زمینیں کیوں چھوڑ دیں؟ جس راستے کو میں درست سمجھتا ہوں،اس پہ چلتے ہوئے۔۔۔ میں نے محسوس کیا کہ میں اپنے ارد گرد دوسروں کو تکلیف پہنچا رہا ہوں۔ جس شخص کو تم نے مارا،وہ کون تھا؟ میرا ایک دوست۔۔۔ یقیناً ابھی بھی تمہیں اس بات کی تکلیف ہے۔ تم اپنی شناخت ظاہر کرکے یہاں سے نکل کیوں نہیں جاتے؟ درگام تمہارا اتحادی ہے۔
وہ قاتل میرا اتحادی وغیرہ نہیں ہے۔ تم کیوں زنگی کو اطلاع نہیں دے رہے؟ اس عورت کو دعا دو۔۔۔ اگر وہ نہ گاتی تو تمہاری حالت برباد تھی۔ یہ اچھی بات ہے کہ اس نے تمہیں لڑانے پر مجبور نہیں کیا۔۔۔ میں نے اسے کئی بار کہا،لیکن میں اس کی بات نہیں سن سکتا تھا۔ آدمی مجھے رقاص(ڈانسر) سمجھتا ہے۔ ! تم میرے لئے مور ہو،خلیل۔۔۔ اسکا بھی وقت آئے گا۔ چلو جی۔۔۔ اچھی طرح کھائیں اور خوب آرام کریں۔ کل ایک بہت مشکل دن تمہارا منتظر ہے۔ شاید یہ تمہارا آخری دن ہو۔۔۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم نے پھر سے فرعون کا لباس پہن رکھا ہے۔
موسیٰ کے آنے تک فرعون ہی ہو سکتا ہے۔ خوش آمدید،قاضی فاضل۔۔۔! تم نے عزت بخشی۔۔۔ تمہارا خداوند کے ساتھ کیا مسئلہ ہے،الیاس؟ جو راستہ تم نے اُسے ڈھونڈنے کے لئے اختیار کیا۔۔۔ آپ اس کے بندوں کو جمع کرتے رہتے ہو۔ میں نے سوچا کہ وہ اپنے بندوں کو جمع کرنے کے بعد ظاہر ہو جائے گا،لیکن ابھی تک کوئی خبر نہیں ہے۔ تمہاری بدولت،تہوار کی شاندار شروعات ہوئی ہے۔ – ہمارا کام ہی یہی ہے۔ لیکن۔۔۔ تمہارے پاس موجود آدمی۔۔۔
ایک یا دو کے علاوہ،بہت کمزور ہیں۔ میں جانتا ہوں،میں جانتا ہوں،یہ قافلہ اچھا نہیں نکلا۔ لیکن میں ابھی بھی تلاش جاری رکھے ہوئے ہوں۔ جس موقعے کی تم تلاش کر رہے ہو،وہ تمہارے پاس چل کر آ گیا ہے۔ میرے پاس تمہارے لئے دو بہت اچھے،جنگجو ہیں۔ ! کتنے شاندار آدمی ہو،قاضی فاضل۔۔۔ کاش آپ اس لعنتی شہوار کے لئے کام نہ کرتے۔۔۔ میں صرف۔۔۔ مصر کیلئے کام کررہا ہوں۔ ! یقیناً،یقیناً۔۔۔! یقیناً۔۔۔
چلو جی! وہ آدمی کہاں ہیں؟ – دروازے پر۔۔۔ تیار ہیں،تمہارا انتظار کررہے ہیں۔ لو۔۔۔ یہ مسئلہ کچھ زیادہ ہی طویل ہوگیا ہے۔ ہمیں کل اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ صلاح الدین کی قید نے ہماری پوری پیشقدمی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ہم اسے بچانے کی کوشش کے دوران۔۔۔ مصر کو کھونے کے دہانے پہ ہیں۔ – صلاح الدین۔۔۔ ! مصر کے تمام خزانے سے زیادہ قیمتی ہے،شہوار۔۔۔ یہ بات ہرگز اپنے دماغ سے نہ نکالنا۔ آفندی۔۔۔! – کیا ہے؟
– قاضی فاضل کی جانب سے ہے۔۔۔ انہوں نے صلاح الدین کو ڈھونڈ لیا ہے۔ وہ جنگجو قیدیوں میں شامل تھا۔ وہ اسے وہاں سے نہیں بچا سکے۔ یہ لکھا ہے کہ سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا ہم نے بات کی تھی۔ صرف تکلیف ہے۔۔۔ ایک خصوصی صلیبی دستہ ان کے ساتھ شامل ہوا۔ اسے ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ دستہ کہاں اور کیسے تعینات کیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب درگام محل سے باہر ہو تو سب کچھ ہونا چاہیئے۔